, ٖ امریکا نے مزید 4 ملکوں کے شہریوں کیلیے ویزے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ڈیلی اردو

امریکی ویزا پابندی کی زد میں آنے والے ملکوں میں کمبوڈیا، اریٹیریا، گنی اور سیرالیون شامل ہیں۔ (فوٹو: فائل)

واشنگٹن: یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چار ملکوں کےلیے امریکی ویزوں پر تاحکمِ ثانی پابندی لگانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے کیونکہ وہ امریکی حکومت سے تعاون نہیں کررہے۔
ویزا پابندی کی زد میں آنے والے ملکوں میں کمبوڈیا، اریٹیریا، گنی اور سیرالیون شامل ہیں جن کے بارے میں یو ایس ہوم لینڈ سیکیوریٹی ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب بھی ان ممالک کے شہریوں کو (امریکی قوانین کی خلاف ورزی کے باعث) امریکا سے بے دخل کیا گیا تو انہوں نے اپنے شہریوں کو واپس قبول کرنے سے انکار کیا۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے مطابق امریکی وزارتِ خارجہ کو ان ملکوں پر ویزا پابندیوں کی باضابطہ درخواست بھجوائی جاچکی ہے جس کی مطابقت میں جلد ہی کوئی نیا حکم نامہ جاری کردیا جائے گا۔ ویزا پابندیوں کا اصل مقصد ان ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ امریکا سے بے دخل کیے گئے اپنے شہریوں کو واپس قبول کریں اور اپنے مقامی قوانین کے مطابق ان پر مقدمات بھی چلائیں۔
واضح رہے کہ امریکا میں وفاقی قانون کی رُو سے وہاں کے وزیر خارجہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی ملک کے خلاف محدود یا مکمل ویزا پابندیاں عائد کرسکیں یعنی اب یہ فیصلہ موجودہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو کرنا ہوگا کہ وہ مذکورہ چاروں ممالک پر کس نوعیت کی اور کیسی ویزا پابندیاں عائد کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ریکس ٹلرسن ممکنہ طور پر کمبوڈیا، اریٹیریا، گنی اور سیرالیون کے خلاف مکمل ویزا پابندیاں نہیں لگائیں گے بلکہ ان کے تحت ان ممالک کے سرکاری عہدے داروں کو ہدف بنایا جائے گا اور وہ ان حکام یا ان کے اہلخانہ کو امریکی ویزے جاری کرنے پر پابندی لگائی جائے گی۔ تاہم اگر پھر بھی ان ملکوں نے اپنی روِش تبدیل نہ کی تو پھر مکمل پابندیوں کا اطلاق کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکا میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں جبکہ امریکی اداروں کے مطابق اس وقت کم از کم ایسے 26 ممالک سے غیر قانونی تارکینِ وطن امریکا میں موجود ہیں جو اپنے بے دخل کیے جانے والے شہریوں کو واپس قبول کرنے سے انکاری رہتے ہیں۔

 
ڈیلی اردو © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top