, ٖ امتحانی پرچے میں جعلی سوال سے پروفیسر نے نقل چور طالب علموں کو پکڑلیا ڈیلی اردو

اگر یہ کہا جائے کہ امتحان میں نقل ایک عالمی مسئلہ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لیکن انجینئرنگ کالج کے ایک پروفیسر نے امتحان میں نقل روکنے کا ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا، جس کی بدولت انہوں نے 14 نقلچُو طالب علموں کو پکڑ بھی لیا: انہوں نے امتحانی پرچے ہی میں ایک عدد جعلی سوال شامل کردیا تھا جسے کسی طرح بھی حل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 
ویب سائٹ ’’بورڈ پانڈا‘‘ کے مطابق، بظاہر ایسا لگتا تھا کہ اس سوال کا تعلق انجینئرنگ کے اسی کورس سے ہے جو پروفیسر صاحب نے پڑھایا تھا لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا، بلکہ یہ سوال بالکل ہی بے مطلب اور بے تُکا تھا جسے ایمانداری سے حل ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
البتہ، اس نقلی سوال کا حل ایک ایسی ویب سائٹ پر موجود تھا جہاں امتحانات کی تیاری کروانے کے ساتھ ساتھ مختلف امتحانی سوالوں کے جوابات بھی پوسٹ کیے جاتے ہیں۔ اکثر طالب علم اس ویب سائٹ کو امتحان کے دوران نقل میں خوب استعمال کرتے ہیں۔
اس امتحان میں بھی نقل کرنے والے بیشتر طالب علم اس ویب سائٹ پر رجسٹرڈ تھے اور یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ عمر رسیدہ پروفیسر صاحب کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوگا۔ لیکن ان کا اندازہ غلط نکلا۔ پروفیسر صاحب نہ صرف اس ویب سائٹ سے واقف تھے بلکہ امتحان میں نقل کے حوالے سے اس ویب سائٹ کی مقبولیت بھی ان کے علم میں تھی۔
کسی کے علم میں لائے بغیر، انہوں نے جعلی ناموں سے اس ویب سائٹ پر اپنے اکاؤنٹس بنالیے تھے۔ کسی اکاؤنٹ سے سوال پوسٹ کیے جاتے تو دوسرے اکاؤنٹ سے وہ خود ہی ان سوالوں کے جوابات دیتے۔ اس طرح تعلیمی سال کے دوران پروفیسر صاحب کی مقبولیت اس ویب سائٹ پر خاصی زیادہ ہوگئی۔
اس چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں اپنی ایک جعلی آئی ڈی سے انجینئرنگ کا وہی نقلی سوال بھی ویب سائٹ پر رکھ دیا جو انہیں امتحانی پرچے میں دینا تھا۔ پھر اپنی دوسری جعلی آئی ڈی سے اس سوال کا کچھ ایسا تفصیلی جواب پوسٹ کردیا جو پہلی نظر میں بالکل درست لگتا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس جواب کو بہت پسند بھی کیا۔
امتحان والے دن انہوں نے کلاس میں جاکر امتحانی پرچہ تقسیم کیا اور سکون سے اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ جیسا کہ عام طور پر نقل میں ہوتا ہے، کچھ طالب علم بار بار اپنا اسمارٹ فون چیک کررہے تھے تو کچھ طالب علموں کو بار بار ٹوائلٹ جانے کی حاجت ہورہی تھی۔ لیکن پروفیسر صاحب نے کسی کو نہیں روکا، جس پر طالب علم یہ سمجھے کہ شاید پروفیسر موصوف کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ نقل کرنے والوں نے اسے اپنے لیے موقع جانتے ہوئے دل کھول کر نقل کی۔
پرچہ ختم ہونے کے بعد پروفیسر صاحب نے تمام طالب علموں سے کاپیاں جمع کیں اور چلے گئے۔
چند روز بعد تمام طالب علموں کو پروفیسر صاحب کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی، جس میں انہوں نے نقل روکنے کےلیے اپنے انوکھے اقدام کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس سوال کے دیئے گئے جوابات کی روشنی میں انہوں نے 14 نقلچُو طالب علموں کو پکڑ لیا ہے اور اب انہیں پورا پرچہ حل کرنے پر بھی ’’زیرو‘‘ ہی ملے گا۔
دوسری جانب وہ طالب علم جو دیانتداری سے پرچہ حل کررہے تھے، انہوں یہ سوال حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور تھوڑے کم نمبروں پر صبر کرلیا تھا۔ اس ای میل میں پروفیسر صاحب نے اعلان کیا کہ وہ تمام طالب علم جنہوں نے یہ سوال حل نہیں کیا تھا، انہیں اس سوال کے پورے نمبر دیئے جائیں گے۔
بورڈ پانڈا کی یہ پوسٹ وائرل ہونے کے بعد لوگوں کی اکثریت نے پروفیسر صاحب کی عقل مندی کی تعریف کرتے ہوئے آج کے نوجوانوں سے کہا ہے کہ اگرچہ ان کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے لیکن اپنے پروفیسر کو عمر رسیدہ اور جدید ٹیکنالوجی سے یکسر ناواقف سمجھنے کی بھاری غلطی کردی۔
فیس بُک پر اس حوالے سے بعض قارئین نے تبصرے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی چاہے کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوجائے، انسانی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پروفیسر صاحب نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
نوٹ: بورڈ پانڈا کی مذکورہ پوسٹ میں ان پروفیسر صاحب کا نام، ملک اور تعلیمی ادارے کا نام پوشیدہ رکھا گیا ہے۔

 
ڈیلی اردو © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top