, ٖ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ڈیلی اردو


زنجیروں میں جکڑا پاوں میں بیڑیاں پہنےسلطان نامی یہ قیدی شدید بیماری کی حالت میںنشتر ہسپتال میں لایا گیا۔
ریاستی ادارے اتنے چوکس ہیں کہ اسکی زنجیریں بستر علالت پہ بھی نہیں کھلیں۔
ایک عام پاکستانی کی یہی اوقات یے خس و خاشاک کی مانند
کوئ وزیر شذیر ہوتا، مسند اقتدار پہ کئی بار فائز رہا ہوتا
کسی خادم اعلی کا ولی عہد ہوتا یا کسی حاکم کا سہولت کار کوئ سرکاری افسر
پھر آپ دیکھتے قانون، ضابطے ہاتھ باندھے اس کی چاکری کرتے دکھائ دیتے
عدالتیں چھٹی کے دن بھی عدل کا ترازو لے کر بیٹھ جاتیں
ڈاکٹرز کی ایک لمبی لائن لگا دی جاتی
پھر عالیہ ہو یا عظمی اس پہ نثار ہو ہو جاتیں
قاضی القضاہ سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے صاحب بہادر کو علاج کے لئے باہر جانے کا پروانہ جاری فرماتا
کوئ قطری ریسکیو کو آتا ائیر ایمبولینس اس کے محل کے کشادہ دالان سے اڑان بھرتی اور یورپ کے سب سے مہنگے شفاخانے کے دروازے تک چھوڑ آتی
ذرا غور سے دیکھیئے
یہ زنجیریں سلطان کو نہیں عام آدمی کے مستقبل کو پہنائ گئی ہیں
عام آدمی
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
کسی مہذب معاشرے سے کوئ تصویر دکھا سکتے ہو ایسی
یاد رکھو
جو قوم زنجیروں سے پیار کرنے لگے
اس پہ مسلط غلامی کی سیاہ رات کی سحر کبھی نہیں ہوتی

 
ڈیلی اردو © 2007-2023. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top