بنگلہ دیش میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بہادر خواتین کو انصاف کب ملے گا؟ کڑوا سچ منظر عام پر آگیا، سننے اور جاننے والوں کو رُلا دینے والا المیہ سامنے آگیاہے۔ ماریئن کا ایک مضمون لبریٹنگ دی وومن آف 1971 ہے، جس میں وہ ان پروگراموں اور کاوشوں کا ذکر کرتی ہیں جو بنگلہ دیشی حکومت نے ملک کے قیام کے فورا بعد جنگ سے متاثرہ خواتین کی بحالی اور حریت کے لیے کی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے اپنے ملک کے عوام کو کہا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہونے والی خواتین کو وہ عزت اور وقار دیں جس کی وہ حقدار ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی التجا پر زیادہ کان نہیں دھرے گئے اور لاتعداد خواتین کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور معاشرے نے انھیں نظر انداز کر دیا۔ لیکن پھر بھی خواتین رہنماں اور شیخ مجیب کی حکومت نے جنگ سے متاثرہ خواتین کے لیے ایک بے نظیر پروگرام بنایا جس کے ذریعے ہزاروں خواتین کی مدد کی گئی اور خواتین کے کام اور آزادانہ طور پر رہنے کے لیے نئی عوامی جگہوں کی تشکیل دی گئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ کس طرح چند سرکردہ خواتین رہنماؤں نے ملک کے قیام کے فورا بعد بہت سی مظلوم خواتین کو، جن کی حالت بہت بری تھی، کیمپوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا۔ ان کے مطابق حکومت نے فورا دو گھر، ایسکاٹن روڈ 20 اور ایسکاٹن 88 اس کام کے لیے مختص کیے کہ ان خواتین کو پناہ دی جائے اور ساتھ ہی ان کے لیے مالی امداد بھی دی گئی۔ بحالی کا یہ آپریشن کئی ماہ جاری رہا۔ ماریئن لکھتی ہیں کہ جب یہ خبر آئی کہ کینٹ کہ علاقے میں کچھ خواتین نے ان پاکستانیوں کے ساتھ ملک چھوڑے کا فیصلہ کر لیا ہے جنھوں نے انھیں زبردستی اپنے پاس رکھا ہوا تھا، تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگلہ زبان کی پروفیسر نیلمہ ابراہیم اور پروفیسر نوشابہ شرافی وزارتِ تعلیم کی ایک اہلکار کے ساتھ اس کی تحقیق کرنے گئیں۔ وہ 50 یا 60 خواتین کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئیں، تاہم 30 یا 40 خواتین نے بنگلہ دیش میں اپنی قسمت کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک خاتون نے ابراہیم کو بتایا کہ کسی دور دراز ملک میں میں چاہے فاحشہ بن کے رہوں یا سڑکوں پر جھاڑو دوں، لوگ مجھے نہیں پہچانیں گے، میرا شوہر، میرے بچے میرا تمسخر نہیں اڑائیں گے۔ محققین کے مطابق بہت سی خواتین نے دوسرے لوگوں کے طعنوں اور شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشیاں کر لیں۔ بہت سی خواتین کی موت صرف اس وجہ سے ہوئی کہ انھوں نے شہروں اور دور دراز علاقوں میں ناتجربہ کار دائیوں سے چھپ کر اسقاطِ حمل کرانے کی کوشش کی۔ محققین کے مطابق کئی ایک بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان اور مشرقِ وسطی کے قحبہ خانوں میں سمگل ہوئیں اور ایک بڑی تعداد نے بچوں کو جنم بھی دیا، جنھیں وار چائلڈ کہا جاتا تھا۔ صابر مصطفی کا دعوی ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے فورا بعد اسقاط حمل کے کئی کلینک بنائے گئے اور بہت سی خواتین نے اسقاطِ حمل کرایا بھی لیکن اس کے باوجود ریپ کی وجہ سے تقریبا 25 ہزار بچے پیدا ہوئے اور ان میں سے بہت سوں کو غیر ملکیوں نے اپنا لیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ مدر ٹریسا نے ایک کلینک بنایا اور 549 بچوں کو گود لیا اور سبھی کو بیرون ممالک لے جایا گیا۔ سینیٹر جان مکین کی بھی ایک بیٹی تھیں جنھیں انھوں نے 1972 میں بنگلہ دیش سے گود لیا تھا۔ صابر کہتے ہیں کہ بی بی سی میں بھی ایک خاتون ہوتی تھیں جو بنگلہ دیشی وار چائلڈ تھیں اور ایک برطانوی جوڑے نے انھیں گود لیا تھا۔ بنگلہ دیشی حکام کے مطابق یہ تعداد اتنی زیادہ تھی کہ شیخ مجیب کو کچھ عرصے کے لیے اسقاطِ حمل کا قانون معطل کرنا پڑا۔ ماریئن لکھتی ہیں کہ مجیب حکومت کے خواتین کی بحالی کے بورڈ کی اولین ترجیحات میں سے ایک یہ تھی کہ کس طرح حاملہ خواتین اور ان خواتین کی جنھیں معاشرتی یا جنسی امراض ہیں، مدد کی جائے۔ اسی لیے ملک میں اسقاطِ حمل کی ممانعت والے قانون کو جنوری سے لے کر اکتوبر تک معطل کر دیا گیا۔ بنگلہ دیشی ذرائع کے مطابق انٹرنیشنل پلینڈ پیرنٹ ہڈ فیڈریشن (آئی پی پی ایف)نے بھی اس سلسلے میں کافی مدد کی۔ پروفیسر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ 1971 میں مشرقی پاکستان کی جنگ میں خواتین کا کردار بھی رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جب آزادی مل گئی تو مجیب الرحمن نے یہ فیصلہ کیا کہ ان سب کو قومی ہیروئنز بنا دینا چاہیے۔ مگر اس کے باوجود بھی ان کے ساتھ جو تشدد ہوا تھا اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ جو لوگ بنگلہ دیش کے متعلق سوچتے ہیں ان کو تو پتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا اور رہا ہے اور اس وجہ سے جب بنگلہ دیش سے معافی کے متعلق بات ہوتی ہے تو اس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم کا ایک بڑا حصہ ہے۔ |
---|
وائس آف چکوال
»
بین الاقوامی
» بنگلہ دیش میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بہادر خواتین کو انصاف کب ملے گا؟ کڑوا سچ منظر عام پر آگیا
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں